Researchers hide data in music – and human ears can’t detect it

محققین نے ڈیٹا کو موسیقی میں چھپا دیا اور کوئی سن بھی نہ سکا

محققین نے ڈیٹا کو گانوں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ اس طرح منتقل کرنے کا طریقہ ڈیویلپ کیا ہے کہ گانے سنتے ہوئے کسی کو ڈیٹا کا پتا ہی نہیں چلتا۔
آواز کی لہروں کے ذریعے  ڈیٹا کی منتقلی نئی بات نہیں۔گانوں کے درمیان ڈیٹا شامل کرنا  کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ڈیٹا شامل کرتے ہوئے ذرا سا شور انسانی کان کو محسوس ہوجاتا ہے۔
اگر کوئی شخص اس خامی پر قابو پا سکے تو  موسیقی ڈیٹا ٹرانسفر کرنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔
کیونکہ اس ڈیٹا کو لوگوں کو پریشان کیے بغیر سمارٹ فون یا کمپیوٹر کے مائیکروفونز سے  حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہ کیسے کام کرتا ہے؟
اس ٹیکنیک کو ای ٹی ایچ زیورچ کے مینوئل ایچیلبرجر اور سائمن ٹانر نے بنایا ہے۔اس ٹیکنیک میں آرتھوگونل فریکوئنسی-ڈویژن ملٹی پیکسنگ (او ایف ڈی ایم) کا استعمال کرتے ہوئے ڈیٹا کو موسیقی کی ایسی  فریکوئنسیز میں استعمال کیا جاتا ہے، جن پر انسانی کان کم توجہ دیتے ہیں بلکہ انہیں نظر انداز کرتے ہیں۔
دیکھنے میں تو یہ اصول کافی آسان لگتا ہے لیکن  اسے مختلف اقسام کے گانوں میں شامل کرنا بہت بڑا ٹیکنیکل چیلنج ہے۔
تجربات کے بعد محققین نے دریافت کیا کہ  اس طریقہ کار سے 24 میٹر کے فاصلے پر 300 سے 400 بٹس فی سیکنڈ کےڈیٹا ریٹ سے ڈیٹا ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے ان میں غلطی کی گنجائش 10 فیصد ہوتی ہےجبکہ اصل موسیقی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تجربہ 40  افراد پر کیا گیا۔
تجربہ کے دوران جب تبدیل شدہ دھن  سپیکر پر چلائی گئی تو ایک شخص کو آواز کی کوالٹی میں کسی طرح کی خرابی محسوس نہیں ہوئی جبکہ سمارٹ فون  نے گانے سے بھیجے گئے ڈیٹا کو پڑھ لیا۔

تاریخ اشاعت : بدھ 17 جولائی 2019

Share On Whatsapp