Facebook’s contract workers are looking at your private posts to train AI

فیس بک کے کنٹریکٹ ملازمین صارفین کی پرائیویٹ پوسٹس دیکھتے ہیں

رائٹر کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق فیس بک کے کانٹریکٹ ملازمین فیس بک او ر انسٹاگرام پر صارفین کی پرائیویٹ پوسٹس دیکھتے ہیں۔ یہ ملازمین مصنوعی ذہانت کو بہتر بنانے کےلیے فیس بک اور انسٹاگرام کی پرائیویٹ پوسٹس کو لیبل لگاتے ہیں۔
دوسری ٹیکنالوجی کمپنیوں کی طرح فیس بک بھی اپنے پلیٹ فارم پر مواد کی درجہ بندی کے لیے  مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ سافٹ وئیر کو مختلف اقسام کے مواد کے بارے میں بتایا جائے۔
اس الگورتھم کو بہتر بنانے کے لیے فیس بک کے ملازمین کو  نمونے کے ڈیٹا کا تجزیہ کرنا پڑتا ہے۔ انسان ہی اس ڈیٹا کی درجہ بندی کرتے ہیں اور اسے لیبل لگاتے ہیں۔اس عمل کو ڈیٹا انوٹیشن  (data annotation)کہا جا جاتا ہے۔
رائٹر کی رپورٹ کے مطابق فیس بک نے ایک بھارتی فرم WiPro کو آؤٹ سورس کیا ہے۔ یہ فرم 260 ملازمین کی مدد سے صارفین کی پوسٹس کو پانچ درجہ بندیوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ان درجہ بندیوں میں سیلفی یا کھانے کی تصویریں اور   نمایاں واقعہ ( جیسے سالگرہ یا شادی) وغیرہ شامل ہیں۔

وی پرو کے ملازمین فیس بک اور انسٹا گرام کے سٹیٹس اپ ڈیٹس، ویڈیوز، فوٹوز، شیئرڈ لنکس اور سٹوریز کا جائزہ لیتے ہیں۔ درستی کے لیے ہر پوسٹ دو ملازمین دیکھتے ہیں اور ان دو ملازمین کو ہر روز تقریباً 700 آئٹمز کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔
فیس بک نے رائٹر کو تصدیق کی ہے کہ وی پرو اُن کے پلیٹ فارمز کے مواد کا جائزہ لے رہا ہے۔ اس مواد میں کچھ دوستوں کے ساتھ شیئر کی گئی پرائیویٹ پوسٹس بھی شامل ہیں۔
اس مواد میں کئی دفعہ صارفین کے نام اور دوسری حساس معلومات بھی ہوتی ہے۔ فیس بک نے بتایا کہ دنیا بھر میں اس کے اس طرح کے 200 پراجیکٹس چل رہے ہیں، جہاں ہزاروں لوگ پوسٹس کو لیبل کرتے ہیں۔
چین میں ایک بہت بڑے آفس میں  لوگ  سیلف ڈرائیونگ کاروں کی تصویروں کو لیبل کرتے ہیں تاکہ پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کی شناخت کی جا سکے۔ انٹرنیٹ کے بہت سے صارفین کے علم میں لائے بغیر اُن سے یہ کام لیا جاتا ہے۔
گوگل  کا کیپچا سسٹم، جس میں صارفین سے چیزوں کی شناخت کا کہا جاتا ہے ، تاکہ اُن کے انسان ہونے کا پتا چلایا جا سکے، یہی کام کرتا ہے۔ ا س ڈیٹا کو مصنوعی ذہانت کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس طرح کا کام کئی مقاصد کےلیے ضروری ہے لیکن مسئلہ تب ہوتا ہے جب پرائیویٹ ڈیٹا پر یہ کام کیا جائے۔ حال ہی میں ہونے والی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ جو ملازمین حساس ڈیٹا پر لیبل لگاتے تھے، انہوں نے ایمزون ایکو ڈیوائسز اور رِنگ سیکورٹی کیمرہ سے حساس معلومات جمع کی ہیں۔
جب آپ الیکسا سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ کہیں کوئی انسان اسے بیٹھ کر سن رہا ہے، لیکن ایسا ہوتا ہے۔
مسئلہ اس وقت زیادہ  خراب ہوتا ہے جب اس طرح کا کام کم معیار کی کمپنیوں کو آوٹ سورس کر دیا جائے۔فیس بک کا کہنا ہے کہ یہ قانونی ہے اور پرائیویسی ٹیم لیبل کیے جانے والے ڈیٹا کی منظوری دیتی ہیں۔فیس بک کا کہنا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں ڈیٹا کی پرائیویسی کے لیے آڈٹنگ سسٹم متعارف کرایا ہے۔تاہم کمپنی اب بھی یورپی یونین کے نئے قوانین جی ڈی پی آر کی خلاف ورزی کر رہی ہے، جس میں کمپنیوں پر صارفین کے پرسنل ڈیٹا کے استعمال پر کئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

تاریخ اشاعت : پیر 6 مئی 2019

Share On Whatsapp