Researchers want to store excess renewable energy as methane

محققین اضافی قابل تجدید توانائی کو میتھین کی صورت میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں

قابل تجدید توانائی  کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اسے محفوظ نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر ہوا یا سولر پینل سے بجلی بنا کراستعمال تو کی جاسکتی ہے لیکن بڑے پیمانے پر  اسے بعد میں استعمال کے لیے محفوظ نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی زیادہ ہوا  چلنے  کی صورت میں گرڈ کی ضروریات کے مطابق تو بجلی بنائی جا سکتی ہے لیکن اسے  بعد میں استعمال کرنے کے لیے محفوظ نہیں کیا جا سکتا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کئی کمپنیاں جیسے ٹیسلا بہت بڑی بیٹریاں بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اب سٹینفورڈ  یونیورسٹی کے محققین متبادل حیاتیاتی بیٹری پر کام کر رہے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ اضافی قابل تجدید توانائی کو خردبینی جرثوموں کی مدد سے میتھین میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس میتھین کو ضرورت پڑنے پر جلا کر اس سے توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔
ایک خردبینی جرثومہ Methanococcus maripaludis ایسا ہے جو ہائیڈروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتے ہیں اور میتھین خارج کرتے ہیں۔ ماہرین اب قابل تجدید توانائی کے الیکٹروڈز سے پانی اور اس کے ہائیڈروجن کے ایٹم الگ کریں گے۔
ہائیڈروجن کے یہ ایٹم خردبینی چرثوموں کو استعمال کرائے جائیں گے۔ جرثومے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کشید کریں گے اور میتھین خارج کریں گے۔ یہ گیس پانی میں حل نہیں ہوتی، اس لیے اسے دوبارہ استعمال کے لیے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ضرورت پڑنے پر، یعنی جب ہوا نہ چل رہی ہو یا آسمان پر بادل ہوں، میتھین کو فوسل فیول کی طرح جلا کر اس سے بجلی پیدا کی جا سکے گی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میتھین گیس کے جلانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوگی، جس سے ماحول خراب ہوگا۔
چونکہ میتھین کو ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کشید کر کے بنایا جائے گا، اس لیے فضا میں اس کی مقدار میں زیادہ اضافہ نہیں ہوگا۔ اس طریقہ کار کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے موجودہ ڈھانچے کو استعمال کرتے ہوئے ہی میتھین سے بجلی بنائی جا سکتی ہے۔
ماہرین اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ یہ کافی سستی ہوگی۔ ڈیپارٹمنٹ آف انرجی اس حوالے سے فنڈز فراہم کرنے کا اعلان بھی کر چکا ہے۔

تاریخ اشاعت : ہفتہ 6 اپریل 2019

Share On Whatsapp