Indian court asks government to ban TikTok downloads because it ‘encourages pornography’

ٹِک ٹوک پورنو گرافی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ عدالت نے ایپلی کیشن پر پابندی کا حکم دے دیا

جنوبی بھارت کے شہر چنائے میں واقع مدراس ہائی کورٹ نے  سنٹرل گورنمنٹ کو  ٹِک ٹوک پرپابندی لگانے کا حکم دیا ہے۔ چینی کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیتی ایپلی کیشن پر الزام ہے کہ یہ  پورنو گرافی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے، جس سے بچوں کا مستقبل اور ذہن خراب ہو رہا ہے۔
عدالت نے اپنے عبوری حکم میں مقامی میڈیا کو ٹِک ٹوک کے ذریعے شیئر کی گئی ویڈیو براڈ کاسٹ نہ کرنے کا کہا ہے۔عدالت نے حکام سے جواب طلب کیا ہے کہ کیا وہ  امریکا کے چلڈرنز آن لائن پرائیویسی پروٹیکشن ایکٹ کی طرز پر بچوں کی  سائبر جرائم سے حفاظت کے لیے کوئی قانون   بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ؟
ٹِک ٹوک نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ وہ عدالتی احکامات کا انتظار  کر رہے ہیں، جس کے بعد مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ مقامی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔
اس سال فروری میں تامل ناڈو کی حکومت نے بھی اپنی ثقافت خراب کرنے اور سائبر بلیئنگ (cyberbullying) یا ٹرولنگ  کی وجوہات کی بنا پر  ایپلی کیشن پر  پابندی لگانے کا منصوبہ بنایا تھا۔  سائبر بلیئنگ کا مسئلہ صرف بھارت تک محدود نہیں۔ 2018ء میں شائع ہونے والی بز فیڈ (BuzzFeed) کی ایک رپورٹ کے مطابق بہت سے امریکی نوجوانوں کو بھی اپنی ویڈیو پر نفرت بھرے تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بھارتی کی انٹرنیٹ قوانین سے متعلق  ایک تنظیم انٹرنیٹ فریڈم  فاؤنڈیشن نے ملک کے انٹرنیٹ صارفین کی طرف سے اس کیس میں فریق بننے کا عندیہ دیا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ کسی بھی ایپلی کیشن پر  پابندی لگانا  ضرورت سے زیادہ  ہوگا۔ تنظیم کے ڈائریکٹر اپر گپتا نے بتایا کہ اس حوالے سے  تمام کمپنیوں اور حکومت کو بیٹھ کر کوئی حل نکالنا چاہیے۔
اگر عدالتی احکامات کےبعد حکومت ایپلی کیشن پر پابندی لگاتے ہوئے ایپل یا گوگل کو ایپ سٹور یا پلے سٹور سے ایپلی کیشن ہٹانے کا کہتی ہے تو اس سے مسئلہ مزید خراب ہوسکتا ہے۔
بھارتی حکومت پچھلے سالوں میں پورن ویب سائٹس پرپابندی لگا چکی ہیں ، جس کے صارفین اُن تک رسائی کے نت نئے ذرائع تلاش کر چکےہیں۔
بھارت میں صرف ٹِک ٹوک ہی زیر عتاب نہیں۔  بھارت کے کئی حصوں میں  پب جی(PUBG) پر بھی پابندی ہے ۔ پابندی کے بعد پولیس نے کئی طلباء کو پب جی کھیلتےہوئے گرفتار بھی کیا ہے۔

تاریخ اشاعت : جمعرات 4 اپریل 2019

Share On Whatsapp