Sharing your children’s bad behavior on social media is making it worse

بچوں کے بُرے برتاؤ کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنا بچوں کے برتاؤ کو مزید بُرا بنا دیتا ہے

میٹ کاکس کا معلوم تھا کہ اپنی بیٹی کو سزا کے طور پر 36  ڈگری درجہ حرارت کے موسم میں 5 میل دور پیدل سکول بھیجنے کےبارے میں جان کر دیگر والدین اُن پر لازمی تنقید کریں گے۔ میٹ کی بیٹی کو دو بار  جھگڑا کرنے پر سکول انتظامیہ نے  بس پر سفر کرنے سے روکا تھا، میٹ کی بیٹی نے باپ سے سکول چھوڑ کر آنے کی درخواست کی تو باپ نے اسے سبق بھی سکھایا اور سوشل میڈیا پر سب کو بھی بتایا۔
میٹ نے دسمبر 2018 میں فیس بک پر  اپنی بیٹی کی سزا کی لائیو ویڈیو پوسٹ کی  تھی۔
میکس نے کہا ”میں جانتا ہوں آپ والدین اس پر مجھ سے اتفاق نہیں کریں گے، لیکن یہ بالکل ٹھیک ہےکیونکہ میں وہ کر رہا ہوں جو مجھے اسے جھگڑا کرنے سے روکنے کےلیے درست محسوس رہا ہے۔“
تھوڑے ہی وقت میں اس ویڈیو کو 15 ملین بار دیکھا گیا۔ ویڈیو پر تبصرہ کرنے والے والدین، ماہر تعلیم اور دیگر بہت سے افراد نے میٹ کاکس کی بھرپور حمایت کی۔
کاکس کی ویڈیو اُن بہت سی ویڈیوز میں سے ایک ہے جن میں والدین سب لوگوں کے سامنے سوشل میڈیا پر اپنے بچوں کو شرمندہ کر رہے ہوتے ہیں۔

نومبر میں ایک ماں نے جوکر کے کپڑے پہنے اور اپنے بیٹے کی کلاس میں اسے شرمندہ کرنے پہنچ گئی۔ ان کا بیٹا بھی کلاس میں شرارتوں سے باز نہیں آتا تھا، تاہم سکول کے پرنسپل نے اس واقعے کی ویڈیو انسٹاگرام پر شیئر کر دی۔ مارچ میں ایک باپ نے میٹ کاکس کی طرح ہی اپنے دس سال بیٹے کو بارش میں ہی دوڑتے ہوئے سکول بھیجا اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی۔ اس شخص کے بیٹے کو بھی بس میں دوسروں کو تنگ کرنے پر بس میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

ایسی ویڈیو پوسٹ کرنے والے اور انہیں پسند کرنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ بچوں کو سبق سکھانے کا اچھا ذریعہ ہیں۔ بچوں کی شخصیت سازی اور سوشل میڈیا کی نفسیات کے محققین کے مطابق صورتحال اس کے برعکس ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے بچوں پر اس کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ بچوں کو جسمانی اور نفسیاتی جارحیت، اُن کی تذلیل، اُن پر چیخنا یا دھمکیاں دینا سنجیدہ مسائل ہیں۔ اس سے بچوں میں آزردگی، انتقام، بغاوت اور پسپائی کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔
سزاؤں کے شکار بچے اپنے برتاؤ کو تبدیل کرنے کی بجائے اسے چھپا لیتے ہیں۔ ماہرین نے بتایا کہ والدین کی طرف سے سختی کرنے سے بچوں میں برے برتاؤ کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
والدین کی طرف سے پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں بچوں کو مارا پیٹا تو نہیں جاتا، جس کے اثرات بھی بُرے ہی ہوتے ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر ان کی سب کے سامنے تذلیل بھی بچوں کی پرورش اور تربیت کا اچھا انداز نہیں ہے۔
ایک جریدے جرنل آف امریکن اکیڈمی آف سائیکاٹری اینڈ دی لا میں شائع ہونے والی تحیقق میں ماہرین نے بتایا ہے کہ شدید تذلیل کسی بھی فرد کو شدید مایوسی، خود کشی کے رحجان اور شدید بے چینی میں مبتلا کر دیتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سب کے سامنے شرمندہ کرنا تاریخی طور پر ایک سخت سزا ہے، جس کے اثرات کی وجہ سے عزت نفس اور زندگی بھی تباہ ہو جاتی ہے۔
بہت سے والدین سوشل میڈیا پر دوسرے والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کے طریقے بتا رہے ہوتے ہیں لیکن خود نہیں جانتے کہ ان کے اثرات کیا نکل سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو سکھانے کے لیے اُن کی آن لائن تذلیل کرنے کے ہٹ کر بھی بہت سے طریقے ہیں۔
ماہر تعلیم جین نیلسن کا کہنا ہے کہ بڑوں  کی مداخلت کے بغیر قدرتی طور پر رونما ہونے والی تبدیلی سزا سے برتاؤبدلنے سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔
اگر بچوں میں برتاؤ کو قدرتی طور پر بدلنے کے مواقع نہ ہوں تو اسے منطقی انداز سے بدلنا چاہیے۔
سکول بس میں داخلے پر پابندی کے بعد پیدل یا بھاگتے ہوئے سکول جانا ایک منطقی طریقہ ہے لیکن اگر اس میں تذلیل اور جسمانی سزا شامل ہو تو بچوں کے برتاؤ پر اس کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔
[short][show_tech_video 368][/short]

تاریخ اشاعت : جمعہ 11 جنوری 2019

Share On Whatsapp