Did Warid surprise everyone

کیا وارد نے واقعی سب کو حیران کر دیا؟

مصنف: سلیم کریم

پاکستان میں تھری جی اور فور جی لائسنسوں کی حالیہ نیلامی اختتام پر اس بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ وارد جیسے جائنٹ نے ٹینڈر میں حصہ کیوں نہیں لیا؟ کچھ نے اسے اس بات کا اشارہ سمجھا کہ وارد بکنے والا ہے جبکہ کچھ نے اسے اماراتی کمپنی کی جانب سے اس قسم کی نیلامی کیلئے حکومت کی اہلیت پر شبہ کا اظہار جانا اور ان کے خیال میں اسی بنا پر انہوں نے نیلامی میں حصہ لینے کی بھی زحمت نہ کی اور اسے وقت کا زیاں جانا-

اور پھر حقیقت میں ایک ایسی چیز ہوئی جس نے لوگوں کو واقعی حیرت میں ڈال دیا- ایکدم سے ہی، وارد نے حیران کن انداز میں فور جی ایل ٹی ای کے لانچ کا اعلان کر دیا- اب اگر صارفین کو کنفیوز کرنے کیلئے تھری جی اور فور جی کافی نہیں تھے کہ اس مکس میں ایل ٹی ای یا لونگ ٹرم ایوولوشن (LONG TERM EVOLUTION) بھی آ جائے تو صارفین تو صرف اپنا سر ہی دھنتے رہیں گے-

واضح ہو کہ تھری جی یا تھرڈ جنریشن ٹیکنالوجی وہ پہلی ٹیکنالوجی تھی جو کہ 2.5 جی یا EDGE کے بعد متعارف ہوئی- اس ٹیکنالوجی نے تیز تر ڈیٹا اسپیڈ کو ممکن بنایا اور صارفین کیلئے ایک ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے ڈیٹا کے استعمال کو ممکن بنایا یعنی مثال کے طور پر آپ فون پر بات کرتے ہوئے فیس بک پر بھی براؤزنگ جاری رکھ سکتے ہیں-

فور جی یا فورتھ جنریشن ٹیکنالوجی میں معاملات ذرا پیچیدہ ہو جاتے ہیں- ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ فور جی کے بھی مختلف ورژنز ہیں- ایک فور جی ہے تو ایک فور جی ایل ٹی ای- کچھ تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ایل ٹی ای ہی اصل فور جی ہے مگر اس بارے میں بھی انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکشن یونین میں بحث جاری ہے، جنکا کا دعویٰ ہے کہ ایل ٹی ای ایڈوانسڈ (LTE Advanced) اور وائی میکس ریلیز ٹو (WiMax Release 2) ہی فور جی کی حقیقی شکلیں ہیں- تاہم اس آرٹیکل میں ہم اس بحث میں نہیں پڑتے-

جب سیلولر کمپنیاں اپنے لئے فور جی کی ٹرم استعمال کرتی ہیں تو وہ عام طور پر اسے HSPA+ یا ہائی اسپیڈ پیکٹ ایکسیس کی جانب ریفر کر رہی ہوتی ہیں جس میں پلس کے سائن کا مطلب ہوتا ہے تھری جی کے مقابلے میں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی- سادہ الفاظ میں اسے یوں سمجھیں کہ آپ کو تھری جی کے مقابلے میں تیز تر ڈیٹا اسپیڈ ملتی ہے- جہاں تھری جی سے توقع کی جاتی ہے کہ اس سے ہمیں تقریباً ٹو میگا بائٹس فی سیکنڈ (MB/s) کی اسپیڈ ملنی چاہئے تو فور جی میں یہ اسپیڈ پانچ MB/s سے دس MB/s کے درمیان ملنی چاہئے-

ایل جی کو تھری جی پی پی نے اس لئے ڈیولپ کیا تھا کہ لیٹنسی میں کمی کرتے ہوئے رفتار بڑھائی جا سکے یعنی وہ ٹائم جو ایک ویب پیج ہمارے براؤزر میں بفر ہونے میں لیتا ہے- اسے ممکن بنانے کیلئے سیل سائٹس اور ڈیوائسز کے درمیان ڈیٹا پراسیسنگ کو بہتر بنایا گیا- ہمیں امید کرنی چاہئے کہ نیٹ ورک پر ہونے والے لوڈ اور سیل سائٹس کے حساب سے ہمیں پانچ MB/s سے پندرہ MB/s کے درمیان اسپیڈ ملے-

تو کیا واقعی میں ایل ٹی ای کی لانچ کا اعلان کر کے وارد نے پی ٹی اے سمیت سب کو حیران کیا؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ نہیں-

وارد جو کہ 2004 میں پاکستان میں لانچ ہوا تھا 8.8Mhz اسپکٹرم میں 1,800Mhz بینڈ اور 5Mhz اسپکٹرم میں 900Mhz بینڈ پر کام کر رہا ہے- ایسا کرنے کی وجہ سے اس کیلئے یہ ممکن ہے کہ وہ ایل ٹی ای کو 1,800Mhz پر لانچ کر سکے جبکہ وائس کالز کو 900Mhz پر منتقل کر دے-

وارد کے صارفین کی تعداد بہت زیادہ نہیں لہٰذا وارد کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ موجود اسپکٹرم کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے آپریٹرز کے برخلاف کسی اضافی اسپکٹرم کے بغیر بھی فور جی ایل ٹی ای لانچ کر سکتا ہے- اور یہ کوئی اتفاق نہیں- وارد پاکستان میں ایک لونگ ٹرم پلان کے ساتھ آیا تھا اور ایک ٹیکنالوجی نیوٹرل لائسنس بھی اسے ایسے ہی نہیں مل گیا تھا بلکہ یہ ابوظبی گروپ کی ملکیتی کمپنی کی بہترین پلاننگ کا نتیجہ تھا-

پی ٹی اے یہ بات اچھی طرح جانتی ہو گی اور وارد اور پی ٹی اے کے درمیان جاری حالیہ کشمکش بظاہر صرف ان موبائل آپریٹرز کی شکایات کم کرنے کیلئے ہے جن سب نے مل کر مجموعی طور پر 111 ارب روپے خرچ کئے ہیں- بہرحال، وارد کی انٹری اور نیلامی کے پیچھے کہانی جو بھی ہو، اس پورے کھیل کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کی عوام ہی کو ہے-

ہو سکتا ہے کہ شروع میں کسی کو پاکستان میں تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی ہونے کے حقیقی فوائد نظر نہ آئیں سوائے اس کے کہ آپ کو موبائل ڈیوائسز پر تیزتر انٹرنیٹ ملے لیکن یہ نیا پلیٹ فارم موجودہ مارکیٹ کو بالکل ہی تبدیل کر دے گا- ہمیں ای کامرس میں اضافہ دیکھنے میں ملے گا- آن لائن کونٹینٹ تک زیادہ لوگوں کی رسائی ہو سکے گی- ہم جس طریقے سے ٹیلی ویژن سے پرنٹ میڈیا تک انفارمیشن کنزیوم کرتے ہیں اس بار وہ زیادہ تیزی سے ڈیولپ ہوں گے- صارفین آن لائن خریداری کر سکیں گے لہٰذا کاربار کی پہنچ بہت دور تک بڑھ جائیگی- تعلیم کلاس رومز تک محدود نہیں رہے گی- اسٹوڈنٹس کیلئے ممکن ہو گا کہ کہیں اور دیے جانے والے لکچرز جیسے LUMS کے لیکچرز تک سندھ کے چھوٹے سے گاؤں میں بیٹھے بیٹھے رسائی ہو سکے-

اس ٹیکنالوجی کے فوائد اور اور مواقع لامحدود ہیں- یہ پاکستان کے لئے ایک دلچسپ وقت ہے اور ہم اس نئے دور میں موبائل مواصلات کو اپنانے کے لئے کس رستے کا انتخاب کرتے ہیں وہ صرف ہماری سوچ تک ہی محدود ہے- ناقدین تو کہیں گے کہ یہ ٹیکنالوجی تو برسوں سے موجود ہے اور پاکستان نے اسے دیر سے اپنایا- میں کہوں گا کہ چلو دیر سے سہی پر اپنایا تو سہی اور اگر وارد بھی اسے اپنانا چاہتا ہے تو یہ اور اچھی خبر ہے-

تاریخ اشاعت : پیر 12 مئی 2014

Share On Whatsapp