Complicated Case Of Death Row Inmate Who Can’t Remember His Crime

سزائے موت کا پیچیدہ ترین کیس۔ مجرم کی یاداشت چلی گئی، جب جرم ہی یاد نہیں تو سزا کس بات کی؟ نئی بحث شروع

سزائے موت کا مجرم  67 سالہ ورنون  میڈیسن  گزشتہ تین دہائیوں سے سزائے موت پر عمل درآمد کا منتظر ہے۔ اس کی سزا پر 2016 میں عمل درآمد ہوجاتا  لیکن  اس کی یاداشت چلے جانے کے بعد اس کا وکیل سزا ملتوی کرانے کے لیے زور لگا رہا ہے۔
اب یو ایس سپریم کورٹ نے دیکھنا ہے کہ اگر کسی قاتل کو اپنا جرم ہی یاد نہیں تو کیا اسے سزائے موت دینا قانونی ہوگا؟
میڈیسن نے 1985 میں ایک پولیس آفیسر کو قتل کیا تھا۔

مئی 2016 میں اس کی سزا پر عمل درآمد ہونا تھا لیکن اس سے پہلے ہی اس کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ شدید چوٹوں کی وجہ سے اس کے موکل کی یاداشت چلی گئی ہے اور اسے اپنے جرم کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔
اس سے پہلے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھاکہ دماغی مریضوں کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی تاہم اگر کوئی مجرم اتنا جانتا ہو کہ اس کا جرم کیا ہے اور اسے کیوں سزا دی جا  رہی ہے تو اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ اسی وجہ سے میڈیسن کی سزائے موت بھی گزشتہ دو سالوں میں کئی دفعہ ملتوی ہو چکی ہے۔اب سپریم کورٹ نے دیکھنا ہے کہ اسے سزائے موت دینا قانونی ہوگا یا غیر قانونی۔

تاریخ اشاعت : منگل 27 فروری 2018

Share On Whatsapp